اس صورتحال نے طلبا کے مستقبل کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے، ان میں وہ طلبا بھی شامل ہیں جو رواں برس موسم گرما میں داخلہ لینے والے تھے، یا وہ جو تعلیمی کیریئر کے وسط میں ہیں، یا وہ جو گریجویشن کے قریب ہیں اور جن کے روزگار حاصل کرنے کے مواقع ان کے سٹوڈنٹ ویزوں سے منسلک ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جو طلبا ہارورڈ میں پہلے سے داخل ہیں اب انھیں امریکہ میں رہنے اور اپنا ویزا برقرار رکھنے کے لیے کسی اور امریکی یونیورسٹی میں منتقل ہونا پڑے گا۔ شریہ ریڈی کہتی ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ ہارورڈ ہمارے لیے کھڑا ہوگا اور کوئی حل نکالا جا سکے گا۔‘
یونیورسٹی نے کہا ہے کہ وہ ’اپنے بین الاقوامی طلبا اور سکالرز کو رکھنے کے لیے پوری طرح سے پرعزم ہے۔ یہ طلبا 140 سے زیادہ ممالک سے آتے ہیں اور یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ اس ملک کے مفاد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
ہارورڈ کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے یہ اقدام امریکہ میں موجود دس لاکھ سے زیادہ بین الاقوامی طلبا پر گہرے اثرات ڈالے گا۔ اور یہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر سخت کارروائیوں کے تسلسل کا حصہ ہے، خاص طور پر ان اداروں پر جہاں فلسطین کے حق میں بڑے مظاہرے ہوئے تھے۔